Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر9

آج تین دن ہوگئے تھے مگر افرحہ کو ہوش نہیں آیا تھا ڈاکٹر نے سٹریس بتایا تھا اور کہا تھا کہ اگر جلدی ہوش نہ آیا تو جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔ ساوی ہر وقت اس کے پاس ہی ہوتی اور خدا سے اس کی خیریت کی دعا کرتی رہتی اس سے ڈھیر ساری باتیں کرتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کوئی جواب نہیں دے گی لیکن اس آس میں کہ وہ اسے سن رہی ہو گی۔۔۔ بےشک جواب نہیں دیتی کیا پتہ ایسے ہی اسے ہوش آ جائے۔۔۔ تین دن پہلے درید اور مراد صاحب نے افرحہ کے بابا کی تدفین کے سارے انتظامات کیے تھے ان کا کوئی رشتہ دار تو تھا نہیں اسی لیے زیادہ لوگ بھی نہیں آئے تھے صرف آس پاس کے لوگ ہی جنازے میں شریک ہوئے تھے۔۔۔۔ تدفین کے بعد وہ لوگ گھر واپس آگئے تھے اور ساوی آتے ہوئے افرحہ کا سامان بھی لے آئی تھی۔۔۔۔ افرحہ کو ہوسپٹل سے سیدھا اپنے گھر ہی لایا گیا تھا ساوی کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنے گھر جائےگی تو ہوش میں آکر اس کی طبیعت نہ خراب ہو جائے۔۔۔ درید نے بھی اس بات کی تائید کی تھی اور اس طرح وہ ابھی مراد ہاوس میں ہی موجود تھی۔۔۔۔ ساوی اس وقت بھی افرحہ کے کمرے میں موجود تھی اور اسی سے باتیں کر رہی تھی جب نادیہ بیگم کی آواز پہ باہر چلی گئی۔۔۔۔نادیہ بیگم اسے کچن میں ہیلپ کرنے کا کہہ رہی تھی ملازمہ اب تک واپس نہیں آئی تھی جو کہ اپنی ماں کے ساتھ گاؤں میں شادی پر گئی تھی جب کہ اس کا شوہر جو کہ مراد صاحب کا ڈرائیور تھا وہ ان کے ساتھ نہیں گیا تھا اور مراد ہاوس میں ہی موجود تھا اور اس نے نادیہ بیگم کو بتایا تھا امرین (ملازمہ) آج ہی واپس آجائے گی مگر ماں جی (امرین کی ماں ) وہی رہے گی۔۔۔۔ وہ کچن میں دوپہر کا کھانا بنانے میں نادیہ بیگم کی مدد کر رہی تھی جب اسے چیخوں کی آواز سُنائی دی۔۔۔۔۔ اور یہ آواز اس کمرے سے آرہی تھی جہاں افرحہ کی رہائش تھی۔۔۔۔ وہ سب کام چھوڑ کر اندر کی طرف بڑھی۔ نادیہ بیگم بھی حواس باختہ سی اس کے پیچھے گئیں ۔۔۔۔۔ ساوی جب روم میں پہنچی تو افرحہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔۔۔۔ ساوی نے جہاںاس کے ہوش میں آنے پر خدا کا شکر ادا کیا وہی اس کی حالت پہ کٹ کر رہ گئی ۔۔۔ افی میری جان کیا ہوا کیوں رو رہی ہو چپ کر جاؤ تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ساوی اسے سمبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ ساوی میرے بابا ووہ چلے گئے وہ مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔۔۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ انہوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا ساوی۔۔۔۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے مگر دیکھو وہ چلے گئے مجھے اکیلا کر کے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا ۔۔۔۔۔۔وہ مسلسل روتے ہوئے بولی۔۔۔۔ افی ایسا مت کہو انہیں تکلیف ہوگی اُنہوں نے کوئی وعدہ نہیں توڑا سب کی موت کا وقت مقرر ہوتا ہے کوئی پہلے چلاجاتا ہے کوئی بعد میں ۔۔۔۔ انکل بھی خدا کی امانت تھے خدا نے ان کو اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔۔اللّٰہ پاک سے شکوہ نہیں کرتے ورنہ اللّٰہ پاک ناراض ہو جائیں گے۔۔۔۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔ مگر میں اکیلی ہوگئی ساوی میں کیسے جیوں گی ان کے بغیر وہ ہی تو میرا واحد سہارا تھے ۔۔۔وہ ہچکیاں بھرتے بول رہی تھی۔۔۔۔۔۔ نہیں بیٹا تم اکیلی نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں جس طرح ساوی میری بیٹی ہے اسی طرح تم بھی میری بیٹی ہو خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔جب کبھی کوئی بھی مسلہ ہو ہمیں بتانا ہم بھی تو تمہارے اپنے ہیں ۔۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم جو کہ دروازے میں کھڑی دیکھ رہی تھی اندر آکے اسے اپنے گلے لگاتے ہوئے بولیں آنٹی آ آپپ آپ یہاں۔۔۔۔۔۔ مم ممیں کہاں ہوں۔۔۔۔۔وہ ان کی طرف دیکھتی پھر اپنے آس پاس دیکھتی پوچھنے لگی یہ تو اس کا کمرہ نہیں تھا ۔۔۔ بیٹا تم ہمارے گھر ہو آج تین دن بعد تمہیں ہوش آیا ہے اور بھائی صاحب نے اپنی آخری خواہش میں کہا تھا کہ ان کے بعد ہم تمہارا دھیان رکھیں تمہیں اپنے پاس رکھیں ۔۔۔۔۔اور اب تم یہیں رہو گی ہمارے ساتھ ہمارے پاس۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم اسے بتاتے ہوئےبولیں۔۔۔ تین دن مطلب میں اپنے بابا کو آخری بار دیکھ بھی نہیں پائی۔۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے خود سے بولی۔۔۔ بس بیٹا تمہاری طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اور پھر تمییں ہوش ہی نہیں آیا ۔۔۔۔۔نادیہ بیگم دُکھ سے بولیں مگر اب تم فکر مت کرو افی اب تو تم ہمارے پاس ہو نا اب تم بلکل ٹھیک ہو جاو گی۔۔۔ ساوی اسے ہگ کرتی ہوئی بولی نن نہیں مم میں یہاں کیسے رہ سکتی ہوں میں آپ سب پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔۔۔ نہیں بیٹا بیٹیاں کبھی بوجھ نہیں ہوتیں اور تم تو ہمیں ساوی کی طرح ہی عزیز ہو اور یہ تمہارے بابا کی آخری لواہش بھی تھی کیا تم ان کی خواہش پوری نہیں کرو گی؟؟؟ وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ مم میں کروں گی پوری ان کی خواہش ان سے بڑھ کر میرے لیے کُچھ بھی نہیں ہے میں ان کی بات کیسے ٹال سکتی ہوں ۔۔۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔ شاباش اب اُٹھو فریش ہو کے آو پھر ساتھ میں لنچ کریں گے اور تمہیں میڈیسن بھی لینی ہے ۔۔۔ ساوی افرحہ کو نیچے لے آنا اپنے ساتھ۔۔۔۔۔وہ افرحہ کو تاکید کرتی ساوی سے بولیں ۔ جی ماما میں لے آوں گی۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔وہ بولتی ہوئیں باہر چلی گئیں ان کے جانے کے بعد ساوی نے افرحہ کے لیے کپڑے نکال کر باتھ روم میں لٹکائے اور اسے باتھ روم میں بھیج کر بیڈ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔ ١٠ منٹ میں وہ فریش ہو کے باہر آگئی ۔۔۔۔ ساوی نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بٹھا کے خود اس کے بال بنائے اور پھر اسے دوپٹہ دیا جو اس نے سر پہ اچھے سے جمایا اور پھر وہ ساوی کے ساتھ ہی باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ دونوں جب نیچے پہنچی تو مراد صاحب اور نادیہ بیگم ہی ڈائیننگ ٹیبل پر موجود تھے جبکہ درید ابھی آفس میں ہی تھا ۔۔۔ وہ دونوں سلام کرتی اپنی اپنی کرسی گھسیٹ کر بِیٹھ گئیں ۔۔۔ مراد صاحب اور نادیہ بیگم نے سلام کا جواب دیا اور پھر نادیہ بیگم دونوں کو لنچ سرو کرنے لگیں ۔۔۔ اب کیسی طبیعت ہے آپ کی بیٹا؟؟؟ مراد صاحب افرحہ سے مخاطب ہوئے۔۔ جی انکل اب ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔۔۔ اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ افرحہ بیٹا آپ میری ساوی کی طرح ہیں اور میں چاہتا ہوں جس طرح میری گُڑیا مجھے بابا کہتی ہے تم بھی بابا ہی کہو۔۔۔۔وہ شفقت سے بولے تو ان کی بات سن کے افرحہ کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔ جی بابا ۔۔۔۔وہ نم آواز میں بولی ۔ اب وہ تمہارے بابا ہیں تو پھر میں آنٹی کیسے ہوئی۔۔۔ نادیہ بیگم مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔۔ آپ آنٹی نہیں ہیں میری ماما ہیں ۔۔۔۔۔وہ مسکرائی۔ جیتی رہو۔۔۔وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔۔۔ آہمم تو رشتے بنائے جا رہے ہیں بھئی مجھے تو رشتہ بنانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ تو پہلے سے ہی میری بہن ہے ۔۔۔۔۔درید جو ابھی وہاں آیا تھا شرارت سے بولا جی بھائی آپ تو میرے پہلے سے بھائی ہیں ۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ تو سب نے اسے خوش دیکھ کے سکون کا سانس لیا۔۔۔ خوش رہنا اس کی صحت کے لیے ضروری تھا۔۔۔۔ درید جاو فریش ہوکے آو پھر ساتھ میں لنچ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ مراد صاحب نے درید سے کہا ۔۔۔۔ جی میں بس ابھی آیا۔۔۔۔۔ وہ کہتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ 5 منٹ بعد وہ وہاں موجود تھا پھر سب نے ساتھ میں لنچ کیا لنچ کے بعد ساوی افرحہ کو روم میں لے گئی اور نادیہ بیگم برتن سمیٹنے لگیں ۔۔۔جبکہ مراد صاحب اور درید سٹڈی روم میں چلے گئے اُنہیں کوئی اہم پروجیکٹ ڈسکس کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔


ساوی اس کو لے کے اس کے کمرے میں آئی اور اسے بیڈ پہ بٹھایا ۔۔۔ سائیڈ ٹیبل پہ اس کے بابا کی تصویر رکھی تھی جسے دیکھ کے افرحہ کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہو گئیں۔۔۔۔۔ افی مت رو پلیز انکل کو تمہارے رونے سے تکلیف ہو گی۔۔۔۔ ساوی اس کی نم آنکھیں دیکھ کر بے بسی سے بولی۔۔۔۔۔ نہیں روتی نہیں رو رہی۔۔۔۔۔۔وہ اپنے آنسو صاف کرتی بولی ہمم گڈ پتا ہے اگلے ماہ سے اگزامز شروع ہیں اور اگلا ماہ شروع ہونے میں بس دس دن ہیں اور ہمیں بہت تیاری کرنی ہے ابھی پہلے ہی کافی حرج ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے بتا رہی تھی۔۔۔ سوری ساوی میری وجہ سے تمہاری پڑھائی کا بھی حرج ہو گیا۔۔۔۔ وہ شرمندہ سی بولی۔۔ ایک لگاؤں گی تمہیں حرج کی کُچھ لگتی تمہیں اتنے مشکل وقت میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتی تھی میں اور اب ہم مل کے تیاری کر لیں گے تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔ وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی۔۔ اور وہ سوچ رہی تھی کہ سچے دوست واقعی نعمت ہوتے ہیں جو ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔۔۔۔ خیر ابھی تو تم ٹھیک نہیں ہو بعد میں پڑھیں گے۔۔۔ میں تمہیں اپنا فیملی البم دکھاتی ہوں ۔۔۔۔۔وہ وہاں سے اُٹھ کر اپنے روم میں گئی اور بچپن سے لے کر اب تک جتنے بھی البم بنائے تھے اُٹھا لائی۔۔۔۔۔ یہ دیکھو یہ میں ہوں ۔۔۔۔وہ ایک تصویر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ جس میں وہ موٹی سی چھوٹی بچی تھی اور کافی کیوٹ بھی۔۔۔۔ تم کتنی موٹی تھی پہلے ساوی۔۔۔۔۔۔۔ افرحہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ آگے بھی تو دیکھو۔۔۔۔ اور پھر وہ ایک کے بعد ایک تصویریں دکھاتی گئی۔۔۔۔۔ جس میں درید اور ساوی کی تصویریں زیادہ تھیں کہیں درید نے ساوی کو گود میں اُٹھایا تھا کہیں کمر پر کہیں وہ اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا کہیں دونوں آئس کریم کھا رہے تھے۔۔۔۔اور کہیں وہ پوز دیتے دکھائی دئیے ۔۔۔۔غرض کوئی ایسی تصویر نہیں تھی جس میں درید ساوی کے ساتھ نہ ہو ۔۔۔۔۔ اہہم اہم لگتا ہے کہ بچپن بنائی جوڑی ہے تمہاری درید بھائی کے ساتھ ۔۔۔۔۔وہ شرارت سے اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ ااا ایسا کُچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔وہ جھینپ سی گئی۔۔ تصویریں دیکھ کے تو ایسا ہی لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یار وہ تو بچپن تھا تب کہاں اتنی سمجھ ہوتی ہے ۔۔۔ . وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔ اوہ مطلب اب ساری سمجھ ہے۔۔۔۔۔ وہ ہنوز اسے چھیڑ رہی تھی۔۔۔ ہاں اب تو ساری سمجھ ہے۔۔۔۔ وہ کھوئے سے لہجے میں بولی۔۔۔۔ مطلب؟؟ افرحہ اسے الجھی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔ اور پھر وہ اسے ساری بات بتانے لگی کیسے درید نے اس پہ حق جتایا اس کی باتیں اس کا انداز اسے بتاتے ہوئے بھی وہ شرم سے سُرخ پڑ رہی تھی۔۔۔ اوہو مطلب آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے۔۔۔۔۔وہ معنی خیزی سے بولی۔ اف اللّٰہ ایسے تو مت چھیڑو۔۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ منہ پہ رکھتی منمنائی۔۔۔۔ تو کیسے چھیڑوں؟؟؟ وہ سوالیہ ہوئی لہجے میں شرارت تھی۔۔۔۔ کیسے بھی نہیں تم آگے دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔ افرحہ ایک بار پھر تصویریں دیکھانے لگی۔۔ آگے مراد صاحب اور نادیہ بیگم کی تصویریں تھیں کہیں پہ درید ان کے ساتھ تھا کہیں پہ ساوی اور کہیں پہ شایان یہ ساری بچپن کی تصویریں تھیں۔۔۔۔ اس نے دوسرا البم اُٹھایا اور اسے کھولا پہلی تصویر پہ نظر پڑتے ہی وہ ساکت سی رہ گئی۔۔۔۔ وہ کوئی یونانی دیوتا تھا خوبصورتی کا مکمل خوبصورت مجسمہ ۔۔۔۔ وہ سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا گرے کلر کی آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک تھی جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔۔۔بال سیدھے ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔خندہ پیشانی ۔۔۔ ہلکی ہلکی بیئرڈ۔۔۔۔ ستواں غرور سے اٹھی ہوئی ناک۔۔۔۔ ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور سفید و سُرخ رنگت ۔۔۔۔۔وہ ہینڈسم اور وجیہہ مرد کی تعریف پہ پورا اترتا تھا ۔۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔۔ بے ساختگی سے تصویر دیکھتے ہوئے اس کے منہ سے نکلا ۔ یہ میرے ون اینڈ اونلی شایان بھائی ہیں بتایا تھا نا لندن گئے ہیں سٹڈی کے لیے۔۔۔۔ ساوی اسے بتا رہی تھی۔۔۔ بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔۔ وہ بڑبڑائی۔۔ کیا کہا؟؟ ساوی کو سمجھ نا آیا۔۔ نن نہیں کُچھ نہیں وہ میں کہہ رہی تھی کہ یہ تو درید بھائی سے بڑھے ہیں نا ایک سال تو پھر درید بھائی کی سٹڈی کمپلیٹ ہوگئی ہے اور وہ بزنس بھی جوائن کر چکے مگر یہ ابھی پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔ وہ الجھن بھرے لہجے میں بولی۔۔۔ ہاں دراصل شایان بھائی بیمار ہوگئے تھے تو ان کے دو تین سال ضائع ہو گئے اس لیے وہ درید سے پیچھے رہ گئے۔۔۔۔۔ ساوی افسوس سے بولی۔۔۔ اوہ اچھا ۔۔۔۔وہ سر ہلا گئی ۔۔ اچھا میں باہر جا رہی ہوں تم آرام کرو اور کُچھ بھی چاہئیے ہو گا تو مجھے بتانا ہچکچانا مت اب یہ تمہارا بھی گھر ہے۔۔۔۔۔ وہ اسے کہتی باہر کی طرف بڑھ گئی اور جاتے ہوئے دروازہ بھی بند کر گئی۔۔۔ اور وہ ایک بار پھراس کمرے میں تنہا رہ گئی اور بابا کی تصویر کو گلے لگاتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔بہت مشکل ہوتا ہے دوسروں کی خوشی کے لیے چہرے پہ مسکراہٹ سجا لینا ورنہ دل کا درد تو بس دل ہی جانتا ہے۔۔۔۔۔


دو دن کے بعد اُنہیں ڈسچارج کر دیا گیا تھا اس نے ڈاکٹر سے ان کی ڈائیٹ اور ھیلتھ کے بارے میں ساری ہدایات لے لیں تھیں اور اب وہ انہیں گھر لے آیا تھا ۔۔۔۔ انہیں ان کے کمرے میں لٹا کے وہ باہر آیا اور بوا کو پرہیزی کھانا بنانے کی تلقین کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔ اپنے کپڑے نکال کے فریش ہونے چلا گیا ۔۔۔دس منٹ کے بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا ۔۔۔۔ تیار ہونے کے بعد وہ واپس ان کے کمرے میں آیا وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگا کے نیم دراز تھیں ۔۔۔ وہ جا کے ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اتنے میں بوا سوپ لے آئیں۔۔۔۔ درید نے چمچ سے اپنے ہاتھوں سے ان کو سوپ پلایا اور ان پہ بستر ٹھیک کرتا باہر جانے لگا ۔۔۔۔۔ کُچھ پتہ چلا ۔۔۔ان کے لہجے میں بے تابی تھی۔۔ نہیں۔۔۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولا اور باہر نکل گیا اس میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔ اور وہ بے بسی سے آنسو بہاتی رہ گئیں۔۔۔ دکھ پچھتاوا ندامت کیا کیا نہیں تھا ان کی آنکھوں میں ۔۔۔۔۔ مگر کُچھ بھی ان کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔۔ میری نور ۔۔۔میری گُڑیا۔۔۔۔ وہ اس کی تصویر کو چومتی رونے لگیں ۔۔ اور کھڑکی پہ کھڑا وہ ان کی حالت دیکھ کے بے بسی محسوس کرتا تیزی سے اوپر چلا گیا اور اس کے کمرے میں داخل ہوا جو آج بھی اسی حالت میں تھا جیسا وہ چھوڑ کے گئی تھی۔۔۔۔۔ سگریٹ سلگاتا ہوا وہ دراز کی طرف بڑھا اور ایک ڈائری نکال لی اس ڈائری کو دیکھتے ہی ایک یاد زہن کے پردے پہ لہرائی۔۔۔ وہ اچانک دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تو وہ ہڑبڑا کر رہ گئی اور جلدی سے اپنے پیچھے کُچھ چھُپانے لگی۔۔۔۔ میری آنکھوں کا نور کیا کر رہا ہے ؟؟؟ وہ اس کی طرف بڑھتا پوچھ رہا تھا ۔۔۔ ککک کُچھ نہیں بسس ایسے ہی بیٹھی بک پڑھ رہی تھی۔۔۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اچھا بک پڑھی جا رہی ہے مجھے بھی دکھاو ۔۔۔۔ وہ اس کے پیچھے جھانکنے کی کوششش کرتا بولا نن نہیں آپ والی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بوکھلا گئی ۔۔۔ تو کس کے والی ہے دکھاو مجھے کیا چھپا رہی ہو وہ اس کی بازو آگے کرتا بولا۔۔ ککچھ نہیں ہے پلیز آپ نہیں دیکھیں گے۔۔۔۔۔ میں تو دیکھوں گا ۔۔۔۔۔ دو ادھر۔۔۔وہ چھینتے ہوئے بولا مگر نور کی گرفت مضبوط تھی اور وہ چھوڑ ہی نہ رہی تھی وہ آگے ہوتے ہوئے اس کے پاس آ گیا اور وہ پیچھے بیڈ پہ گر گئی ۔۔۔توازن بگڑا اور وہ جو اس سے ڈائری چھین رہا تھا ایک دم اس کے اوپر گرتا کہ نور نے اس کے سینے پہ ہاتھ رکھتے اسے خود پہ گرنے سے روکا۔۔۔۔ اسے سب کُچھ بھول گیا کہ وہ یہاں کیوں آیا تھا اس کی ڈائری بھی بھول گیا آس پاس جیسے سب غائب ہو گیا ۔۔۔۔۔ اگر کُچھ تھا تو وہ بس اس کی نور تھی۔۔۔۔وہ یک ٹک اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ایک پل کے لیے بھی نظریں نہ ہٹا پایا ۔۔۔۔ اسے اپنے چہرے پہ اس کی نظروں کی تپش محسوس ہو رہی تھی مگر بے بس تھی ہل بھی نہیں سکتی تھی کہاں وہ ایک جوان مرد اور کہاں وہ نازک سی گُڑیا۔۔۔۔۔ ابھی وہ اسے کُچھ کہتی کہ وہ بے اختیار جھکا اور اس نازک سی لڑکی سانسیں قید کر گیا اور وہ اس کی قید میں پھڑپھڑاتی رہ گئی ۔۔۔۔۔ پوری ہمت مجتمع کرتے وہ اسے دھکا دیتی ہوئی اُٹھی اور بغیر اس کی طرف دیکھے باہر بھاگ گئی اور اپنی ڈائری بھی چھوڑ گئی مگر وہ جو ڈائری چھین رہا تھا اسے بھی کہاں کُچھ ہوش تھا وہ ایسے ہی اس کے بیڈ پہ لیٹا اسے سوچتا رہ گیا۔۔۔۔ اچانک انگلی پہ ہوتی جلن سے وہ اس کی یادوں سے باہر آیا تو دیکھا کہ سگریٹ اس کی انگلی کو جھلسا چکا تھا مگر یہ جلن اس جلن سے بہت کم تھی جو اس کی نور کی جدائی سے ہو رہی تھی۔۔۔۔ اب بھی آجاو نہ کہیں سے آکے چھین لو ڈائیری مجھ سے صرف ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔وہ منت کرتا اسے پکار رہا تھا مگر اس کی ایک پکار پہ دوڑ کے آنے والی اس کی منتوں کو بھی نہیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments